گجرات (پ۔ر) پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر چوہدری قمر زمان کائرہ نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک کا سنتے ہی وزیراعظم ممبران قومی و صوبائی اسمبلی سے روز مرہ کی بنیادوں پر ملنا شروع ہو گئے ہیں اور اُنہیں ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کا اعلان کر دیا ہے اب ایم این ایز کے گروپ بن رہے ہیں جو اپنے اپنے مطالبات کر رہے ہیں کوئی وزارت تو کوئی ترقیاتی گرانٹ مانگ رہا ہے پنجاب کے اندر بھی بیس بائیس ایم پی ایز کہہ رہے ہیں کہ ہمارا وزیر اعلیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اب وزیر اعلیٰ کو بھی یاد آ رہا ہے کہ ایم پی اے انکے دست و بازو ہیں اس سے پہلے تو کسی کا خیال نہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ استعفوں کا آپشن آخری ہے یہ ایٹم بم ہے یہ ہم اُس وقت چلائیں گے جب ہمیں فتح کا مکمل یقین ہو گا آخری ہتھیار پہلے کبھی استعمال نہیں کرنا چاہئے لانگ مارچ جب ہو گا تو پورا ملک باہر نکلے گا عدم اعتماد کی تحریک میاں نواز شریف نے محترمہ بے نظیر بھٹو کیخلاف استعمال کی تھی جس میں وہ کامیاب تو نہ ہوئے مگر چند روز بعد ہماری حکومت ختم ہو گئی وہ گجرات پریس کلب میں نو منتخب عہدیداران کو مبارکباد دینے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو چلتا کرنے اور سیاست میں اداروں کی مداخلت ختم کرنے کیلئے پی ڈی ایم تشکیل دی گئی حالانکہ یہ جدوجہد پیپلز پارٹی آغاز سے ہی کر رہی ہے لیکن اس فورم کو بنانے کیلئے باقاعدہ 26 نکاتی یادداشت لکھی گئی جس پر گیارہ جماعتیں اکٹھی ہوئیں کہ ملکر تحریک چلائیں گے۔ ہماری پانچ رُکنی قانونی ٹیم نے واضح کیا کہ استعفوں کی صورت میں سینٹ کے الیکشن نہیں رُک سکتے سینٹ الیکشن یا ضمنی الیکشن میں ہماری بات کو الیکشن میں حصہ لینے کیلئے میاں محمد نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان سمیت تمام جماعتوں نے بھی تسلیم کیا ہے پیپلز پارٹی ہی وہ واحد جماعت ہے جو آج نئی نسل کی قیادت کرنے کی اہل ہے اور یہ نئی نسل ہمارے پاس ہے باقی جماعتوں کے پاس تو مجھ جیسے عمر رسیدہ افراد سیاستدان ہیں سماج کو پی ڈی ایم تحریک سے جوڑنے کا ابھی عمل جاری ہے اس کیلئے تھوڑا وقت درکار ہو گا الیکشن کمیشن آفس کے باہر مظاہرے سے لوگوں کو تاثر دیا گیا کہ یہ تحریک ناکام ہو چکی ہے مگر وہ ہمارا احتجاجی مظاہرہ تھا جلسہ نہیں تھا جس میں ملک بھر سے کسی کو کال نہیں کی گئی صرف یادداشت فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے دی گئی جس کے بعد چھ سال بعد کیس ری اوپن ہو گیا حکومت نے جو نئی انکوائریاں شروع کی ہیں میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اِن انکوائریوں سے کچھ نہیں نکلنا‘ شیخ عظمت سعید کو چاہئے کہ وہ اس انکوائری سے باہر ہو جائیں کیونکہ وہ مشرف دور میں نیب کے پراسیکیوٹر اور شوکت خانم کے بورڈ آف گورنرز کا حصہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی ایک مشکل وقت سے گزر رہی ہے اور مشکل وقت میں ہی ثابت قدمی سے قائم رہنا ہی سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے ہمارے ہاں بدقسمتی سے سیاست کا مقصود صرف ممبری بنا دیا گیا ہے سیٹ ملنے کو ہی سیاست میں کامیابی کی دلیل و اعلان سمجھا جا رہا ہے لیکن ہم ایسا نہیں سمجھتے اگر ہماری حکومتیں بن جاتی ہیں اور معاشرہ تنزلی کی طرف چلا جائے تو وہ حکومت کسی کام کی نہیں اور اگر آپ کی حکومت نہیں ہے اور معاشرے کی سمت دُرست ہے اور ہم ایک بہتر سماج تشکیل دینے کی طرف چل پڑتے ہیں تو یہی اصل کامیابی ہے پیپلز پارٹی 53 سال سے اپنا کردار ادا کر رہی ہے ہمارا المیہ یہ رہا کہ اس ملک کے ریاستی ادارے ہوں یا دیگر ادارے‘ پیپلز پارٹی کو ہمیشہ موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔ ہر مارشل لاء میں بالخصوص ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں سب سے زیادہ ہماری جماعت کو ٹارگٹ کر کے وفاداریاں تبدیل کروائی گئیں 2018ء کے انتخابات میں ایجنسیوں نے جو کھیل کھیلا انکا فوکس بھی پیپلز پارٹی ہی تھا جب ریاست کے میجر لوگ کسی ایک جماعت کو مسلسل ٹارگٹ کرتے ہیں تو اس جماعت کیلئے اپنی بقاء مشکل ہو جاتی ہے مگر پیپلز پارٹی الحمدللہ آج بھی اپنی شناخت کو قائم رکھے ہوئے ہے اور ہمارا دعویٰ ہے کہ مزدوروں‘اقلیتوں‘ خواتین‘ کسانوں کے مسائل ہوں پیپلز پارٹی سے بڑھ کر کوئی دوسری جماعت آواز بلند کرتے دکھائی نہیں دیتی جو اِن کی بھلائی کیلئے ہوں۔ ہمارے دور میں انہیں تحفظ دیا جاتا ہے تاکہ عام آدمی کی زندگی آسان ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ کاروباری طبقہ ہمارے دور میں ہی خوشحال ہوا تقسیم دولت کا جو بہترین نظام ہے وہ ہمارے دور میں تشکیل پایا گیا اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان کے عوام کی جو پیپلزپارٹی سے توقعات ہیں اُس پر ہم پورا نہیں اُتر پائے لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ جو ہمارے راستہ کی دیواریں اور کانٹے ہیں اس کے باوجود بھی ہم کھڑے ہیں اگر ہماری جگہ کوئی اور ہوتا تو اُسکا کہیں وجود نظر نہ آتا۔ قمر زمان کائرہ نے کہا کہ موجودہ سرکار کو جب انسٹال کرنے کی باری آئی تو اِنہیں لانے والوں نے یہ راہ دکھائی کہ آپ احتساب کی بات کریں‘ ہمارے ملک میں چونکہ توازن برقرار نہیں ہے وسائل بہت کم ہیں اور مسائل بہت زیادہ ہیں اسی وجہ سے عوام کو یقین دلایا گیا کہ کچھ جماعتوں کے افراد ملک کی ساری دولت لوٹ کر لے گئے ہیں اور سارے مسائل کی جڑ بھی وہی ہیں اِگر انہیں پکڑ کر اندر کر دیا جائے اور اِن سے دولت نکال لی تو پاکستان میں سب اچھا ہو جائے گا یہ خواب عوام کو دِکھایا گیا تھا جس پر عوام کو عارضی یقین آ گیا مگر ہم اُس وقت بھی کہتے تھے کہ یہ حکمران حقیقی نہیں ہیں بلکہ اِنہیں کوئی اور سیاسی میدان میں کھلا رہا ہے پاکستان میں نیب کے ذریعے کیسز بنانے کا رواج بڑا پرانا ہے کبھی کسی نے اداروں سے نہیں پوچھا کہ تمہارے پاس جو لوٹی ہوئی دولت ہے وہ کہاں ہے‘ تمہارے خراب وطیرے کو کون ٹھیک کرے گا کبھی کسی نے عدلیہ‘ کبھی کسی نے ایجنسز سے نہیں پوچھا۔ کیا میڈیا کے اندر خراب لوگ نہیں ہیں‘ آج اور ماضی کی صحافت میں بے پناہ فرق آ چکا ہے سیٹھ اور ایڈیٹر کا فرق ہی ختم ہو چکا ہے آج سیٹھ خود ہی ایڈیٹر ہے خود ہی مالک ہے خود ہی پالیسی ساز ہے اگر خرابیاں ڈھونڈی جائیں تو ہر جگہ موجود ہیں موجودہ حکومت جو واحد ایجنڈے پر آئی تھی کہ ہم احتساب کریں لوٹی ہوئی دولت باہر کے ممالک سے 200 ارب ڈالر واپس لائیں گے ٹیکسوں کا نظام بہتر کریں گے مگر یہ خواب ہی تھی جو خاص وقت کے لئے استعمال کئے گئے آج تین سال کو ہونے کو ہیں مگر موجودہ حکمران کھڑے ہوکر یہ کہہ رہے ہیں کہ ادارے ٹھیک نہیں ہیں ہمارا عدالتی نظام ٹھیک نہیں ہے کیا اِنہیں یہ سب کچھ پہلے معلوم نہ تھا کیا وہ پہلے کسی دوسرے ملک کے باشندے تھے موجودہ حکمران بتائیں کہ انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں کن لوگوں سے پیسہ برآمد کروایا ہے‘ اب تو ملک کی اعلیٰ عدالت نے اپنا تفصیلی فیصلہ دیدیا ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ نیب بنیادی طور پر احتساب کا ادارہ ہی نہیں رہا یہ تو لوگوں کی پگڑیاں اُچھالنے‘ حکومتیں بنانے اور گرانے کا ادارہ ہے۔ چوہدری قمر زمان کائرہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ نیب کے قوانین کو درست کیا جائے مگر ہمارے بارے واویلا کیا جاتا ہے کہ ہم یہ سب کچھ اپنے لئے این آر او مانگنے کیلئے کر رہے ہیں لیکن ہم عدالتوں میں کیس بھگت رہے ہیں کوئی این آر او نہیں مانگ رہے اور نہ ہی کوئی رعایت مانگ رہے ہیں۔ اب بتایا جائے کہ سپریم کورٹ نے جو کہا وہ کس کیلئے این آر او مانگ رہی ہے آج اگر حکومت سارے مینڈیٹ کے باوجود فیل ہو چکی ہے تو عیاں ہو گیا کہ ان میں بہتری کا کوئی راستہ نہیں رہا حکمرانوں نے سوائے گالیاں دینے کے اور کچھ نہیں کیا سرئے محل ہو یا میاں نواز شریف پر کیسز یہ تو آمریت کے ادوار سے چلائے جا رہے ہیں جب لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانی ہو تو ان کیسوں کا ڈھول پیٹنا شروع کر دیا جاتا ہے حالانکہ انکے اپنے گھر کے اندر ہی بہت سی انکوائریاں شروع ہونے والی ہیں مگر انہوں نے نئے پاکستان کی ٹرک کی بتی کے پیچھے عوام کو لگا دیا ہے لوگوں کی زندگیوں میں تلخیاں اور آگ انہی کی وجہ سے لگی ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی آج بھی اس ملک کی سیاست کو درست سمت میں لے جانے کی کوشش کر رہی ہے‘ ہمارے کئی منتخب عوامی نمائندوں کو بھگا کر نئے گھونسلوں میں شامل کروایا گیا جو وہاں جا کر اب پچھتا رہے ہیں انہیں ہم کہہ رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی اُبھر کر سامنے آئے گی۔
اہم خبریں
Load/Hide Comments
فیس بک پیج
اس ہفتی کی شخصیت
تازہ ترین
- کراچی کیلئے بجلی 10.32 روپے فی یونٹ تک مزید مہنگی کرنیکی درخواست
- ممکنہ گرفتاری کا خدشہ: بشریٰ بی بی نے عدالت سے رجوع کر لیا
- اسلام آباد: قومی اقتصادی کونسل کا اہم اجلاس آج طلب کر لیا گیا ہے۔
- گوادر میں پاک بحریہ کے ہیلی کاپٹر کوحادثہ ، 2 افسران اور ایک جوان شہید
- پرویز الہٰی کی گرفتاری کا معاملہ ، آئی جی اسلام آباد کو توہین عدالت کا نوٹس جاری